چراغ (بچوں کے لیے دل چسپ کہانی)
*"چراغ"*
*راج محمد آفریدی*
*درہ آدم خیل*
ہمت آباد کے لوگ با ہمت ، محنتی اور خوددار تھے ۔ گاؤں کا ہر بندہ شوق سے محنت مزدوری کرتا ۔ ان میں ایک بھی تیار خور نہیں تھا ۔ یہ سست اور کاہل لوگوں کا گاؤں نہیں تھا ۔ پاس کے علاقوں میں سخت کام کے لیے ہمت آباد ہی سے لوگوں کو بلایا جاتا۔ یہاں کے فقیر بھی بھیک مانگنے کی بجائے کاڑ کباڑ بیچ کر اپنا پیٹ پالتے تھے ۔ گاؤں کے غربا فقیروں سے پرانی چیزیں خریدتے ۔
عبید کا تعلق ہمت آباد سے تھا ۔ وہ والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ روزانہ دوپہر تک کھیتوں میں کام کرتا ۔ پھر گھر آکر گھریلوں کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹاتا ۔ اکثر کھانا خود ہی تیار کرتا ۔ پھر ابو کا ساتھ دینے شام تک کریانہ کی دکان پر بیٹھا رہتا ۔ وہ فقیروں کو کباڑ بیچتے ہوئے دیکھتا تو اس کا دل ان کی مدد کرنے کو کرتا مگر اسے پرانی چیزوں سے لگاؤ نہیں تھا ۔ وہ گھر کے لیے ہمیشہ نئی چیزیں خریدتا ۔
عبید کا ایک دوست الہ دین بھی اسی کی طرح محنتی تھا ۔ وہ ہمیشہ پہاڑوں میں کام کرتا ۔ ایک دفعہ الہ دین نے عبید کو پہاڑوں کی سیر کروائی ۔ وہاں عبید نے گہرے اور تاریک غار دیکھے ۔
عبید والدین کا تابع فرمان تھا ۔ ان کی خدمت کے لیے ہمیشہ حاضر ہوتا ۔ ایک دن وہ دکان کی طرف جارہا تھا کہ ایک ضعیف فقیر پر اس کی نظر پڑی جس کے پاس کباڑ کی بوری پڑی تھی ۔ فقیر خاموش بیٹھا ہوا تھا ۔ عبید کو لگا ، فقیر نے کئی روز سے کچھ نہیں کھایا ۔ اس نے فقیر کی مدد کرنے کا ارادہ کیا ۔
"السلام علیکم فقیر بابا !"
"وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ! جیتے رہو بیٹا!"
"فقیر بابا ! لگتا ہے آپ نے کچھ کھایا نہیں ۔ پاس ہی میری دکان ہے ۔ آئیں آپ کو کچھ کھلاؤں ۔"
فقیر نے یہ سن کر انکار میں سر ہلایا ۔ اس نے عبید سے کہا ۔
"میں نے ہمیشہ محنت مزدوری کرکے کھایا ہے ۔ اس عمر میں تیار خور بننا نہیں چاہتا ۔ اگر میری مدد ہی کرنی ہے تو پاس پڑی بوری سے کوئی چیز اٹھا کر مجھے پیسے دو ۔ "
عبید نے بوری کھولی تو اس میں ساری پرانی چیزیں پڑی تھیں ۔ اس نے فقیر بابا کی خاطر بوری میں سے ایک پرانا چراغ نکالا ۔اس نے سوچا کہ چراغ میرے کسی کام کا نہیں ۔ فقیر بابا کو رقم دے کر اسے کہیں پھینک دوں گا ۔ عبید چراغ خرید کر دکان کی طرف چلا گیا ۔ دکان پہنچ کر اس نے ایک طرف چراغ رکھ دیا اور ابا کے ساتھ کام میں مشغول ہوگیا ۔ مصروفیت کی وجہ سے چراغ اس کے ذہن سے نکل گیا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے ۔
ایک دفعہ عبید دکان میں گاہکوں کو سودا بیچ رہا تھا کہ اس کی نظر فقیر بابا پر پڑی۔ دو بندے اسے کندھوں سے پکڑ کر کہیں لے جارہے تھے ۔ چند بچے ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے ۔ عبید نے ایک بچے کو روک کر پوچھا۔
"یہ کیا ہورہا ہے ؟ یہ لوگ کون ہیں اور انہوں نے فقیر بابا کو کیوں پکڑ رکھا ہے ؟"
بچے نے عبید سے کہا۔
"یہ دونوں کسی جادوگر کے کارندے ہیں ۔ ان کے مطابق فقیر بابا نے جادوگر کا کوئی چراغ چرایا ہے۔ اب اس کے پاس چراغ نہیں تو وہ اسے اٹھا کر لے جارہے ہیں۔"
عبید نے سنا تو اسے فقیر بابا سے خریدا ہوا چراغ یاد آگیا ۔ اس نے فوراً گرد میں لپٹا چراغ اٹھایا ۔ جونہی عبید نے کپڑے سے چراغ صاف کیا ، اس سے "ہوہوہاہاہا" کی آواز لگاتا ہوا جن نکل آیا ۔ عبید جن کو دیکھ کر نہیں گھبرایا کیونکہ اسے بچے کی زبانی علم ہوچکا تھا کہ یہ کسی جادوگر کا چراغ ہے ۔ جن نے یہاں وہاں دیکھا ۔ عبید کو دیکھتے ہی اس نے ہاتھ باندھ کر کہنا شروع کیا۔
"آقا! میں آپ کا غلام ہوں ۔ آپ جو کہیں گے ، میں وہ کام کروں گا ۔"
عبید نے پوچھا ۔
"تم میرے لیے کیا کیا کرسکتے ہو ؟"
"کھیتوں میں کام کرنا ، درخت کاٹنا ، دکان میں موجود سامان کو ترتیب سے رکھنا ، کھانا پکانا ، کنویں سے پانی بھر کر لانا اور بہت کچھ ۔"
جن نے ایک ہی سانس میں کہا ۔ عبید یہ سن کر خوش نہیں ہوا تو جن نے پریشان ہو کر اس سے پوچھا ۔
"آقا! کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی ؟ کیونکہ میں آپ کو آپ کے کاموں میں سہولت دے سکتا ہوں۔"
عبید نے نفی میں سر ہلایا ۔
"اس طرح تو میں سست اور کاہل بن جاؤں گا ۔ ایک دفعہ مجھے آرام کا چسکا لگ گیا تو میں کبھی محنت نہیں کر پاؤں گا ۔ اسی طرح اگر کسی اور کو تم ملے تو وہ بھی سست پڑ سکتا ہے۔ اس لیے میں تمہیں چراغ میں بند کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی غار میں پھینکنا چاہتا ہوں ۔ "
جن یہ سن کر افسردہ ہوا ۔
"آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ "
یہ کہہ کر وہ چراغ کے اندر چلا گیا ۔ عبید نے چراغ اور دیگر پرانا سامان باندھا۔ اسی دوران وہاں سے الہ دین کا گزر ہوا ۔ عبید نے الہ دین کو پکارا۔
"دوست ! صبح پہاڑ پر جاتے ہوئے میرے سامان کو کسی گہرے تاریک غار میں پھینک دینا۔"
الہ دین نے اثبات میں سر ہلایا ۔ وہ چراغ لے کر خوشی خوشی گھر کی طرف روانہ ہوا۔

Lovely
ReplyDeleteBoht umdah tehreer
ReplyDelete